مذکورہ بالا عنوان کے تحت ”فتح الباری“ وغیرہ
کتابوں میں واقع چند اوہام ذکر کیے جاتے ہیں۔ حافظ الدنیا:
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ جیسے جبالِ علم کی
طرف وہم کی نسبت کرنے کا موضوع بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے
زیادہ تیز ہے اور اس کو سپرد قلم کرنا ایک انتہائی دشوار
اور ناخوش گوار فریضہ ہے، یہی احساس قلم کا عناں گیر اور
راقم سطور کا دامن کش رہا؛ لیکن ”ہدی الساری“ ص:۳۹۵ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا - امیر المومنین
فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے متعلق - ذکر
کردہ جملہ ”وَلا بُدَّ لِلْجَوَادِ مِنْ کَبْوَةٍ“، ”فتح الباری، ص:۳۶۱، ج:۷ میں منقول
جملہ ”وَالْغَلَطُ لا یَخْلُوْ مِنْہُ انْسَانٌ“، شیخ عبدالفتاح ابو غُدَّہ رحمة اللہ علیہ کے قول
: لَمْ یَسْلَمْ مِنْ الْخَطَاِٴ أحَدٌ مِّنَ
الأئمَّةِ الْمَشْھُوْدِ لَھُمْ بِالْحِفْظِ وَالْعَلْمِ وَالضَّبْطِ
وَالْاتْقَانِ (الرفع والتکمیل فی
الجرح والتعدیل، تحت عنوان الاستدراک، ص:۵۶۳)، شیخ موصوف رحمہ اللہ کے ”امیرالمومنین فی
الحدیث“ لقب پر کلام کے دوران میں قول: وَلاَ یَلْزَمُ مِنْ
وَصْفِ الْمُحَدِّثِ بِھٰذَا اللَّقَبِ أنْ یکُوْنَ قَدْ سَلِم مِنْ
الْخَطأ وَالْغَلَطِ أوِ النَّقْدِ وَالْکَلَامِ فِیْہِ (جواب الحافظ المنذری عن أسئلة فی الجرحِ والتعدیل،
ص:۱۰۵)، امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ کے
ارشاد: مَنْ زَعَمَ أنّ الثِّقَاتِ لاَ یَتَأَتّٰی
مِنْھُمُ الْوَھَمُ، فَقَدْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ (فیض الباری، ص:۱۱۰، ج:۴) اور مشہور مقولہ ”مِنْ کَمَالِ الْمَرْءِ أنْ
تُعَدَّ سَقْطَاتُہ“
نیز ”فیوضِ سبحانی، ص:۳۳، ۳۴ میں حافظ
ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کے ایک وہم کا ذکر کرتے ہوئے
محدث العصر حضرت مولانا محمدیونس صاحب جونپوری مدظلہم: شیخ الحدیث
مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے ارشاد:
”وہم سے کون عاری ہے؟ ․․․․
غلطی کو بیان کردینا؛ تاکہ لوگ غلطی سے آگاہ ہوجائیں
اور اس غلطی میں نہ پڑیں، کوئی عیب نہیں ہے۔
ابن حجر مکی فقیہ رحمہ اللہ نے ”الفتاوی الکبری“ میں
ایک جگہ لکھا ہے: کَانَ التَّلاَمِیذُ یَعْتَرِضُونَ علٰی
الْاَسَاتِذَةِ، وَکَانَ لَھُمْ زَیْنٌ، لاَ شَیْنٌ․ یہ یااس کے قریب قریب الفاظ ہیں،
یعنی تلامذہ اپنے اساتذہ پر اعتراض کیاکرتے تھے یہ اُن کے
حق میں زینت کا سبب تھا، عیب نہیں تھا۔ ہاں! کسی
کی غلطی کا اظہار تنقیص کی غرض سے مذموم اور کِبر کی
بات ہے، اس سے اللہ بچائے کہ آدمی بڑوں کی تنقیص کرے۔“
انھیں علماء کے اعتدال نے یارا دیا کہ
احتسابِ نفس کے بعد طلبہ کو غلطی میں واقع ہونے سے بچانے کے لیے
”فتح الباری“ وغیرہ میں واقع اوہام کو قلم بند کیا جائے؛
چناں چہ سردست ایسے چند مقامات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
واضح ہو کہ وہم کی نسبت میں حضرات مصنّفین کی
ظاہر عبارت پیش نظر رہی ہے؛ لیکن اس میں بعض مرتبہ اختلاف
نُسخ جیسے احتمال کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ ان ابحاث میں بندہ نے جو
لکھا ہے، اس کو حرفِ آخر نہیں کہا جاسکتا، ترجمانِ حقیقت نے فرمایاہے۔
گمان مبر کہ بہ پایاں
رسید کارِ مُغاں
ہزار بادئہ ناخوردہ در رگ
تاک است
ابوشاہ یمنی رضی اللہ عنہ کے لیے خطبہ
لکھ دینے کا واقعہ کب کا ہے؟
$
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی نوراللہ
مرقدہ (۱۳۱۵-۱۴۰۲ھ) کی ”تقریر بخاری شریف“ (اردو) کے
”مقدمہ“ میں ہے:
”علماءِ سلف میں کتابتِ حدیث کے متعلق تین
مذاہب ہوگئے:
ایک جماعت یوں کہتی ہے کہ چوں کہ بعض دوسری
احادیث سے کتابت کا ثبوت ملتا ہے؛ اس وجہ سے حدیث کا لکھنا، لکھانا
جائز ہے۔ مثلاً:
حجة الوداع کے موقع پر ایک صحابی حضرت ابوشاہ یمنی
نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ خطبہ مجھے لکھوادیجیے۔
آپنے فرمایا: اکتبو لأبی شاہ․ اس خطبہ کے اندر کیا تھا؟
احادیث ہی تو تھیں۔“ (تقریر بخاری شریف
(اردو)، ص:۴۲، ج:۱، دارالاشاعت،
کراچی)
”سراج القاری لحلّ صحیح
البخاری“ افادات: شیخ
الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی
قدس سرہ میں ”تقریر بخاری شریف“ (اردو) کا یہ مضمون
بعینہ منقول ہے، ملاحظہ ہو: سراج القاری، ص:۳۱، ج:۱، جامعہ قاسمیہ دارالعلوم
زکریا: مرادآباد، طبع اول: جمادی الاولی ۱۴۳۱ھ)
”تقریر بخاری شریف (اردو) میں ”کتاب
العلم“ میں فجاء رَجلٌ مِّنْ أھلِ الیمن“ کے تحت:
”یہ آنے والے حضرت ابوشاہ ہیں، جیساکہ
ابوداود وغیرہ کی روایات میں تصریح ہے․․․․
اور یہی جملہ ”اُکْتُبُوا لِأبِیْ فُلاَنٍ“ بخاری کی غرض ہے کہ دیکھو! یہ حجة
الوداع کا واقعہ ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے امر سے کتابتِ
حدیث ہورہی ہے۔“
”الکنز المتواری فی
معادن لامع الدراری وصحیح البخاری“ میں فجاء رجل من أھل الیمن کے ذیل میں ہے:
ھذا الجائی ھو سیّدنا
أبوشاہ، کما صرح فی روایة أبي داوٴد وغیرہ․․․ وبما أن غرض الامام البخاری
ھو ھذہ الجملة ”اکتبوا“ فھذہ القصة وقعت فی حجة الوداع․ (الکنز المتواری، کتاب العلم، باب کتابة العلم، ص:۳۵۱، ج:۲، موٴسسة الخلیل
الاسلامیة: فیصل آباد)
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس
سرہ (۱۲۹۶-۱۳۷۷ھ) کے ملفوظات میں ہے:
(ملفوظ: ۳۴) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجة
الوداع کے موقع پر منیٰ میں اپنا نہایت جامع اور فصیح
خطبہ پڑھا، جس میں اجمالاً تمام شرائع اسلامیہ کو ذکر کیا گیا
تھا، تو ابوشاہ نے اس کے لکھوادینے کی استدعاء کی، آپ نے فرمایا:
اس کو لکھ دو۔ (بخاری، سیرت شیخ الاسلام، ص:۵۶۰، ج:۲، مکتبہ دینیہ:
دیوبند، طباعت: ربیع الاوّل:۱۴۱۴ھ)
بندہ کہتاہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوشاہ یمنی
رضی اللہ عنہ کی درخواست پر خطبہ لکھ دینے کا امر فرمایا
تھا، وہ ”حجة الوداع“ کے موقع پر نہیں؛ بل کہ ”فتح مکہ“ کے موقع پر تھا؛
چناں چہ ”صحیح بخاری، کتاب العلم، باب کتابة العلم“ کی جس حدیث
پاک میں یہ قصہ مذکور ہے، اس کے سیاق میں اس کی
صراحت ہے۔ مکمل حدیث اس طرح ہے:
․․․․ عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا
رَجُلًا مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّةَ بِقَتِیلٍ
مِنْھُمْ قَتَلُوہُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ النَّبِیُّ صلّی اللہ علیہِ
وَسَلَّم، فَرَکِبَ رَاحِلَتَہ فَخَطَبَ فَقَالَ: إِنَّ اللہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّةَ
القَتْلَ أَوِ الفِیلَ، قَالَ محمدٌ: وَاجْعَلُوہُ عَلَی الشَّکِّ،
کذا قال أبو نُعَیْمٍ: القَتْلَ او الفِیلَ، وغیرہ یقولُ:
الفیلَ وَسُلِّطَ عَلَیْھِمْ رَسُولَ اللہِ وَالمُؤْمِنُونَ، أَلاَ
وَإِنَّھَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِی،
أَلاَ وَإِنَّھَا حَلَّتْ لِی سَاعَةً مِنْ نَھَارٍ أَلاَ وَإِنَّھَا
سَاعَتِی ھَذِہِ حَرَامٌ، لاَ یُخْتَلَیٰ شَوْکُھَا وَلاَ
یُعْضَدُ شَجَرُھَا وَلاَ تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُھَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ،
فَمَنْ قُتِلَ فَھُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ: إِمَّا أَنْ یُعْقَلَ
وَإِمَّا أَنْ یُقَادَ أَھْلُ القَتِیلِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ
الیَمَنِ، فَقَالَ: اکْتُبْ لِيْ یَا رَسُولَ اللہِ، فَقَالَ:
اکْتُبُوا لِأَبِی فُلاَنٍ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ: إِلَّا
الإِذْخِرَ یَا رَسُولَ اللہِ، فَإِنَّا نَجْعَلُہُ فِی بُیُوتِنَا
وَقُبُورِنَا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ: إِلَّا الإِذْخِرَ إِلَّا الإِذْخِرَ․(صحیح بخاری، کتاب
العلم، باب کتابة العلم، ص:۲۲، ج:۱، قدیمی: کراچی)
ابن ابی جمرة رحمہ اللہ نے اس پر جزم نہیں کیاہے
$
غارِ حراء میں سب سے پہلی وحی نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے جب ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا کو پورا ماجرا سنایا، تو خشیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
لقد خشیتُ علٰی
نفسی․ (صحیح
بخاری، بدء الوحی، ص:۳،
ص:۱، قدیمی: کراچی)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) نے مذکورہ خشیت کی مراد میں علماء کے بارہ
اقوال نقل فرمائے ہیں، جن میں سے چوتھا قول مرض کا اندیشہ نقل
کرکے فرمایا کہ ابن ابی جمرة رحمہ اللہ (وفات: ۶۹۹، وقیل: ۶۷۵ھ) نے اسی پر جزم کیاہے؛ چناں چہ ”فتح الباری“
میں ہے:
والخشیة المذکورة اختلف
العلماء فی المراد بھا علی اثنی عشر قولا․․․․ رابعھا: المرض، وقد جزم بہ ابن
أبی جمرة․ (فتح الباری، ص:۳۳، ج:۱، دارالریان:
القاہرة)
علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ (۸۵۱-۹۲۳ھ) نے بھی مرض والے قول پر جزم کی نسبت صاحب بہجة
النفوس شیخ عارف ابن ابی جمرة رحمہ اللہ کی طرف کی ہے؛ چناں چہ
”ارشاد الساری“ میں ہے:
(خشیت علٰی
نفسی) الموت من شدة الرعب، أو المرض، کما جزم بہ فی بھجة النفوس․ (ارشاد الساری، ص:۹۰، ج:۱، العلمیہ:
بیروت)
”امداد الباری شرح بخاری“ میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا اور ہامش ”لامع الدراری“ نیز ”الکنز المتواری“ میں حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ قسطلانی
رحمہما اللہ دونوں کا کلام بلا تعقب منقول ہے۔ ملاحظہ ہو: امداد الباری، ص:۱۸۲، ج:۳، مکتبہٴ حرم: مرادآباد، لامع
الدراری، ص:۵۰۱، ج:۱، الامدادیة: مکة
المکرمة، الکنز المتواری، ص:۴۹، ج:۲، موٴسسة الخلیل
الاسلامیہ: فیصل آباد․
نواب صدیق حسن خاں صاحب قنوجی بھوپالی نے
حافظ ابن حجر اور علامہ قسطلانی رحمہم اللہ کے مانند مرض والے قول پر جزم کی
نسبت ”بہجة النفوس“ کی طرف ہے، پھر آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی بات بھی ”فتح الباری“
کے حوالے سے ذکر فرمائی ہے:
(لقد خشیت علیٰ
نفسی) الموت من شدة الرعب أو المرض کما جزم بہ فی بھجة النفوس․․․ قال الحافظ فی الفتح: ․․․․ وابعھا: المرض، وقد جزم بہ ابن
أبی جمرة․ (عون الباری لحلّ أدلة
صحیح البخاری، ص:۵۱، ۵۲، ج:۱، العلمیة: بیروت)
بندہ کہتا ہے:
یہاں حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ قسطلانی
اور نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہم اللہ کو وہم ہوا ہے؛ اس لیے
کہ صاحب بہجة النفوس شیخ عارف ابن ابی جمرة رحمہ اللہ نے مرض والے قول پر جزم نہیں
کیا ہے؛ بل کہ انھوں نے دو احتمال ذکر فرمائے ہیں: (۱) مرض (۲) کہانت۔ اُن
کا رجحان اِن دو میں سے کہانت والے احتمال کی طرف ہے، انھوں نے اسے
اظہر قرار دیا ہے؛ چناں چہ حضرت موصوف ”بھجة النفوس“ میں فرماتے ہیں:
قولہ علیہ السلام: ﴿لقد خشیت علی نفسی﴾ خشیتہ علیہ السلام ہنا تحتمل وجھین:
أحدھما أن تکون خشیتہ من
الوعک الذی أصابہ من قبل الملک، فخشی أن یقیم بالمرض من
أجل ذلک․
الثانی أن تکون خشیتہ
علیہ السلام من الکھانة، وھو الأظھر؛ لأنہ علیہ السلام کان یبغض
الکھنة وأفعالھم، فلما جائہ الملک ولم یصرح لہ بعد بأنہ نبی أو رسول،
خشی علیہ السلام اذ ذاک أن یصیبہ من الکھانة شیء؛
لأنھا کانت فی زمانہ کثیرة، وھذا منہ علیہ السلام کثرة مبالغة فی
الاجتھاد وتمحیض فی الأفعال؛ لأنہ قد صحّ أن الحجر کان یخاطبہ
قبل ذلک، ویشھد لہ بالرسالة والمدر والشجر کذلک، وقد أخبرہ بعض الرہبان
بذلک؛ لکن بعد ھذا کلہ لما أن أصابہ علیہ السلام ھذا الأمر، وھو محتمل لوجھین․ أحدھما ضعیف والآخر قوی بتلک الأدلة التی
ظھرت لہ قبل، لم یترک الوجہ المحتمل، وان کان ضعیفا حتی تحقق
بطلانہ بیقین․ وبہ یستدل المتصوفة فی
الواقع اذا وقع لھم محتملا لوجھین أو وجوہ، و أحدھا یخاف منہ والوجہ الآخر
من المبشرات أنھم یبحثون علی الشیء الذی یخافون منہ
وان کان ضعیفا بالنسبة الی غیرہ․
یشھد لما قررناہ من أن النبی صلى الله عليه وسلم کانت خشیتہ من الکھانة جواب خدیجة
الیہ، وکیف رفعتہ الی ورقة، فلو کانت خشیتہ علیہ
السلام من المرض لما کان جواب خدیجة الیہ بتلک الألفاظ ولما احتاج أن یبث
خبرہ علیہ السلام لورقة․ (بھجة النفوس، ص:۱۸، ۱۹، ج:۱، دارالجیل: بیروت)
”صحیح
بخاری“ میں حدیثِ ہرقل کی تخریج کتنے مقامات میں
ہوئی ہے؟
$
امام بخاری رحمة اللہ علیہ (۱۹۴-۲۵۶ھ) نے اپنی ”صحیح“ میں حدیثِ ہرقل کتنے
مقامات میں تخریج فرمائی ہے؟ اس سلسلے میں واقع ہونے والے
اوہام پر مشتمل بندے کا ایک مضمون ماہنامہ ”دارالعلوم“ کے پچھلے ایک
شمارے میں عنوان بالا سے شائع ہوچکا ہے؛ اس لیے یہاں اُسے حذف
کردیا ہے۔
یہاں صحابی کے نام میں وہم ہوا ہے
$
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ
اللہ (۷۳۳-۸۵۲ھ) ”فتح الباری“ میں فرماتے ہیں:
والتحقیقُ أنَّ أولَ
صلاةٍ صلّاھا فی بنی سلمةَ لمّا مات بِشْرُ بنُ البراءِ بن مَعْرورٍ
الظّھرُ․ (فتح الباری، کتاب الایمان،
باب الصلاة من الایمان، ص:۱۲۰، ج:۱، دارالریان: القارة)
”تحقیق یہ ہے کہ سب سے پہلی نماز جو (خانہٴ
کعبہ کی طرف رُخ کرکے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوسلمہ میں،
جب حضرت بشربن براء بن مَعْرور رضی اللہ عنہما کی وفات ہوئی،
ادا فرمائی وہ ظہر کی نماز ہے۔“
بندہ کہتاہے:
یہاں صحابی کے نام میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو وہم ہوا ہے؛ کیوں کہ تحویلِ
قبلہ سے قبل وفات پانے والے حضرت بشر بن براء بن مَعْرُور رضی اللہ عنہما کے
والد حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت بشر بن براء رضی
اللہ عنہما نہیں۔ حضرت بشر بن براء تو تحویل قبلہ کے وقت بقید
حیات تھے، ان کا وصال فتح خیبر کے موقع پر سلّام بن مِشْکَمْ کی
بیوی زینب بنت الحارث کی پیش کردہ بھونی زہر
آلود بکری کا گوشت کھانے سے ہوا تھا۔ ”فتح الباری“ میں
ہے:
والذین ماتوا بعد فرض
الصلاة وقبل تحویل القبلة من المسلمین عشرة أنفس․․․ ومن الأنصار بالمدینة
البراء بن معرور بمھملات وأسعد بن زرارة․ (فتح الباری، کتاب الایمان، باب الصلاة من الإیمان،
ص:۱۲۱، ج:۱، دارالریان: القاھرة)
”العجاب فی بیان
الأسباب“ (أسباب نزول
القرآن) للحافظ ابن حجر العسقلانی میں ہے:
قال الواحدی:
قال ابن عباس فی روایة
الکلبی - یعنی عن أبی صالح عنہ -: کان رجال من أصحاب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من المسلمین قد ماتوا علی القبلة
الأولی، منھم أبو أمامة أسعد بن زرارة أحد بنی النجار والبراء بن
معرور أحد بنی سلمة فی أناس آخرین، جائت عشائرھم، فقالوا: یا
رسول اللہ، توفی إخواننا وھم یصلون إلی القبلة الأولیٰ،
وقد صرفک اللہ إلیٰ قبلة إبراھیم، فکیف بإخواننا؟ فأنزل
اللہ عزوجل ﴿وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ﴾․ (العجاب فی بیان الأسباب، ص:۹۴، العلمیة: بیروت)
علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ (۶۷۳-۷۴۸ھ) ”العبر فی خبر من غبر“ میں سن ایک ہجری
کے واقعات میں تحریر فرماتے ہیں:
وفیھا توفی البراء
بن معرور أحد النقباء و أول من بایع النبی صلی اللہ علیہ
وسلم لیلة العقبة․ (العبر فیخبر من غبر، ص:۵، ج:۱، العلمیة: بیروت)
عباراتِ بالا سے معلوم ہواکہ حضرت براء بن معرور رضی اللہ
عنہ کا انتقال تحویل قبلہ سے پہلے ہواہے۔
اب ذیل میں وہ عبارات درج کی جاتی ہیں،
جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت بشر بن براء بن معرور رضی
اللہ عنہما کی وفات فتح خیبر کے موقع پر ہوئی تھی؛ چناں
چہ حافظ ابن حجر رحمہ
اللہ ”فتح الباری“ میں فرماتے ہیں:
قال ابن إسحاق:
لما اطمأن النبی صلی
اللہ علیہ وسلم بعد فتح خیبر، أھدت لہ زینب بنت الحارث امرأة
سلام بن مشکم شاة مشویة، وکانت سألت: أی عضو من الشاة أحب إلیہ؟
قیل لھا: الذراع، فأکثرت فیھا من السم، فلما تناول الذراع لاک منھا
مضغة ولم یسغھا، وأکل معہ بشر بنا البراء فأساغ لقمتہ، فذکر القصة، وأنہ صفح
عنھا، وأن بشر بن البراء مات منھا․ (فتح الباری، کتاب
المغازی، باب الشاة التی سمّت للنبی صلی اللہ علیہ
وسلم بخیبر، ص: ۵۶۸، ۵۶۹، ج:۷، دارالریان: القاہرة)
حافظ ابن حجر رحمہ
اللہ ”الإصابة فی تمییز الصحابة“ میں فرماتے ہیں:
۶۵۴
(بشر) بن البراء بن معرور ․․․․ وأما بشر فشھد العقبة مع أبیہ،
وشھد بدرا وما بعدہا، ومات بعد خیبر من أکلة أکلھا مع النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم من الشاة التی سمّ فیھا، قالہ ابن إسحاق․ (الإصابة، ص:۱۵۰، ج:۱، دارالفکر: بیروت)
ملحوظہ:
علامہ شمس الدین برماوی رحمہ اللہ (۷۶۳-۸۳۱ھ) نے فتح خیبر کے موقع پر بھونی ہوئی
زہرآلود بکری کاگوشت کھانے کی وجہ سے وفات پانے والا بجائے حضرت بشر
کے ان کے والد حضرت براء رضی اللہ عنہما کو قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: اللامع الصبیح، ص:۲۹۲، ج:۱۱، دارالنوادر: سوریة․
اسی طرح قدیمی کتب خانہ: کراچی، پاکستان کی مطبوعہ
”صحیح بخاری“ کے حاشیہ میں بھی واقع ہوا ہے، ملاحظہ
ہو: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب الشاة التی
سمت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بخیبر، ص:۶۱۰، ج:۲، قدیمی: کراچی، یہ وہم ہے۔
العرض بحث کی ابتداء میں مذکور حافظ ابن حجر عسقلانی
رحمة اللہ علیہ کے قول: والتحقیقُ أن أول صلاةِ صلّاھا فی بنی سلمةَ
لمّا مات بِشْرُ بنُ البراءِ بنِ معرورٍ الظّھرُ (فتح الباری، ص:۱۲۰، ج:۱) میں بشر بن
براء بن معرور رضی اللہ عنہما کا ذکر وہم ہے۔ یہ وہم دیگر
شروح وامالی میں بھی درآیاہے، بعض میں حافظ ابن حجر
رحمہ اللہ کے حوالے سے اور بعض میں ان
کے حوالے کے بغیر۔ ذیل میں بطور مثال چند شروح وامالی
کا ذکر کیاجاتاہے:
(۱) ضیاء الساری فی
مسالک أبواب البخاری، ص:۴۲۵، ج:۱، دارالنوادر: سوریہ․
(۲) کوثر المعانی الدراری
فی کشف خبایا صحیح البخاری، ص:۲۲۶، ج:۲، موٴسسة الرسالة: بیروت․
(۳) ہامش لامع الدراری علی
جامع البخاری، ص:۵۸۴، ج:۱، المکتبة الإمدادیة: مکة
المکرمة
(۴) الکنز المتواری فی
معادن لامع الدراری وصحیح البخاری، ص:۴۰۲، ج:۲، موٴسسة الخلیل
الإسلامیہ: فیصل آباد
(۵) معارف السنن شرح سنن الترمذی،
ص:۳۶۹، ج:۳، الرشیدیة: کراتسی
(۶) الکوثری شرح ترمذی،
ص:۱۵، ج:۲، مکتبہ حرم: نئی دہلی
(۷) ایضاح البخاری، ص:۳۷۸، ج:۱، ادارہ دعوتِ اسلام: کراچی
(۸) سراج القاری لحلّ صحیح
البخاری، ص:۱۹۳، ج:۱، جامعہ قاسمیہ دارالعلوم
زکریا: مراد آباد
اس موقع پر صاحب امدادالباری شرح بخاری کو پیش
آنے والے وہم میں بشر بن براء اور براء بن معرور کے درمیان فرق ہی
نظر انداز ہوگیا ہے، ملاحظہ ہو: إمداد الباری شرح بخاری، ص:۶۱۹، ۶۲۰،
ج:۴، مکتبہ حرم: مراد آباد
اس رات میں سرے سے وضوء کا ذکر ہی نہیں
$
”صحیح بخاری“ میں ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنْ
مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ کُرَیْبٍ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُولُ: دَفَعَ رَسُولُ
اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّی
إِذَا کَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ یُسْبِغِ
الوُضُوءَ فَقُلْتُ: الصَّلاَةُ یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ: الصَّلاَةُ
أَمَامَکَ فَرَکِبَ فَلَمَّا جَاءَ المُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ
الوُضُوءَ ثُمَّ أُقِیمَتِ الصَّلاَةُ فَصَلَّی المَغْرِبَ، ثُمَّ
أَنَاخَ کُلُّ إِنْسَانٍ بَعِیرَہُ فِی مَنْزِلِہِ، ثُمَّ أُقِیمَتِ
العِشَاءُ فَصَلَّی، وَلَمْ یُصَلِّ بَیْنَھُمَا․ (صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب إسباغ الوضوء، ص:۲۶، ۲۷، ج:۱، قدیمی: کراچی)
”․․․․ حضرت کریب مولیٰ
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت اُسامہ بن زید
رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سُنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ سے روانہ ہوئے، یہاں
تک کہ جب ایک گھاٹی میں پہنچے، تو سواری سے اترے اور پیشاب
کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور وضو میں
اسباغ نہیں کیا (یعنی خفیف وضو فرمایا)، میں
نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نماز کا ارادہ ہے؟ (یا نماز کا وقت
ہوگیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز (یا
نماز کی جگہ) تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ جاکر نماز پڑھیں
گے)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے، جب مزدلفہ میں آئے،
تو سواری سے اترے اور وضو فرمایا، تو وضو میں اسباغ کیا،
پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے مغرب پڑھائی، پھر ہر شخص نے اپنا اونٹ اس کے ٹھکانے پر بٹھایا،
پھر عشاء کے لیے تکبیر کہی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے (عشاء کی) نماز پڑھائی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھی۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس رات جس پانی سے وضو فرمایا، وہ زمزم کا پانی تھا، اس
کی تخریج عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زیاداتِ مسند احمد بن
حنبل میں اسنادِ حسن سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ
عنہ کی حدیث سے کی ہے۔ ”فتح الباری“ میں ہے:
(فائدة): الماء الذی توضأ
بہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلتئذ کان من ماء زمزم، أخرجہ عبد اللہ
بن أحمد بن حنبل فی زیادات مسند أبیہ بإسناد حسن من حدیث
علی بن أبی طالب․ (فتح الباری، کتاب
الوضوء، باب إسباغ الوضوء، ص:۲۹۰، ج:۱، دار الریان: القاہرة)
بندہ کہتا ہے:
یہ وہم ہے؛ اس لیے کہ محولہٴ بالا روایت
میں اس رات میں سرے سے وضو کا ذکر ہی نہیں، چہ جائیکہ
ماءِ زمزم سے وضو کا ذکر ہو؛ البتہ اس روایت میں طوافِ افاضہ کے موقع
پر ماءِ زمزم سے وضو کا ذکر ہے۔ مکمل روایت حسب ذیل ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ، حَدَّثَنِی أَحْمَدُ بْنُ
عَبْدَةَ الْبَصْرِیُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِیرَةُ بْنُ عَبْدِ
الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِیُّ، حَدَّثَنِی أَبِی
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ
حُسَیْنٍ بن علي، عَنْ أَبِیہِ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ،
عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رضی اللہ
عنہ: أَنَّ النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَفَ
بِعَرَفَةَ وَھُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ، فَقَالَ: ”ھَذَا
الْمَوْقِفُ، وَکُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ“ ثُمَّ دَفَعَ یَسِیرُ
الْعَنَقَ، وَجَعَلَ النَّاسُ یَضْرِبُونَ یَمِینًا وَشِمَالًا،
وَھُوَ یَلْتَفِتُ وَیَقُولُ: ”السَّکِینَةَ أَیُّھَا
النَّاسُ، السَّکِینَةَ أَیُّھَا النَّاسُ“ حَتَّی جَاءَ
الْمُزْدَلِفَةَ، وَجَمَعَ بَیْنَ الصَّلاتَیْنِ، ثُمَّ وَقَفَ
بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَوَقَفَ عَلَی قُزَحَ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ
الْعَبَّاسِ، وَقَالَ: ”ھَذَا الْمَوْقِفُ، وَکُلُّ مُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ“ ثُمَّ
دَفَعَ وَجَعَلَ یَسِیرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ یَضْرِبُونَ یَمِینًا
وَشِمَالًا، وَھُوَ یَلْتَفِتُ وَیَقُولُ: ”السَّکِینَةَ،
السَّکینةَ أَیُّھَا النَّاسُ“ حتی جَاءَ مُحَسِّرًا فَقَرَعَ
واحلتَہ فَخَبَّتْ، حَتی خرج، ثم عاد لیَسْرہِ الأولِ، حتی رَمی
الجمرةَ، ثم جاء المَنْحَر فقال: ”ھٰذا المَنْحَرُ، وکلُّ مِنی
مَنْحَرٌ“․
ثم جائَتہ امرأَةٌ شبابةٌ من خَثْعَمَ، فقالت: إنَّ أَبی شَیخٌ
کَبیرٌ، وقد أَفْنَدَ، وأَدرکَتْہ فَریضةُ اللہ فی الحَجِّ، ولا
یستطیعُ أَدائَھا، فیُجزِیءُ عنہ أَن أُوٴدِّیَھا
عنہُ؟ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”نعم“، وجَعل یصرِفُ
وجہَ الفَضل بنِ العباس عنھا․
ثم أتاہ رَجُلٌ فقال: إِنی
رَمَیْتُ الجَمْرَةَ، وأَفَضْتُ ولَبِستُ ولم أَحْلِقْ․ قال: ”فلا حَرَجَ، فاحْلِقْ“․ ثم أَتاہُ رجل آخرُ، فقال: إِنی رَمَیْتُ وحلقتُ
ولَبِستُ ولم أَنْحَرْ․ فقال: ”لا حَرَجَ فانْحَرْ“․
ثم أفاض رسولُ اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم، فدعا بسَجْلٍ من ماءِ زَمزَمَ، فَشَرِبَ منہ و توضأ، ثم
قال: ”انْزِعُوا یا بَني عبدِ المُطَّلبِ، فلولا أَن تُغْلَبُوا علیھا
لَنَزَعْتُ“․
قال العباس: یا رسول
اللہ، إِنی رأیتُک تَصْرِفُ وجہَ ابنِ أَخِیکَ؟ قال: ”إنی
رأَیتُ غُلامًا شابًا، وجاریةً شابةً، فخَشِیتُ عَلَیْھِما
الشَّیطانَ“․ (مسند الإمام احمد بن حنبل، مسند
علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ، حدیث: ۵۶۴، ص:۸،۹، ج:۲، موٴسسة الرسالة: بیروت)
”فتح الباری“ میں واقع ہونے والا وہم دیگر
شروح وکتب میں بھی درآیا ہے، بعض میں ”فتح الباری“
کے حوالے سے اور بعض میں اس کے حوالے کے بغیر۔ ذیل میں
بطور مثال چند شروح وکتب کاذکر کیا جاتاہے:
(۱) منحة الباری بشرح صحیح
البخاری، کتاب الوضوء، باب إسباغ الوضوء، ص:۴۱۳، ج:۱، الرشد: الریاض
(۲) إرشاد الساری، کتاب
الوضوء، باب إسباغ الوضوء، ص:۳۴۹، ج:۱، العلمیة: بیروت
(۳) ضیاء الساری فی
مسالک أبواب البخاری، کتاب الوضوء باب إسباغ الوضوء، ص:۱۰۰، ج:۳، دارالنوادر: سوریة
(۴) حاشیة التاودی بن
سودة علی صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب إسباغ الوضوء، ص:۱۴۹، ج:۱، العلمیة: بیروت
(۵) فتح المبدی بشرح مختصر
الزبیدی، کتاب الوضوء، ص:۲۱۵، ج:۱، العلمیة: بیروت
(۶) عون الباری لحلّ أدلة صحیح
البخاری، کتاب الوضوء، ص:۲۵۷، ج:۱، العلمیة: بیروت
(۷) الفجر الساطع علی الصحیح
الجامع، کتاب الوضوء، باب إسباغ الوضوء، ص:۳۰۳، ج:۱، الرشد: الریاض
(۸)کوثر المعانی الدراری
فی کشف خبایا صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب إسباغ
الوضوء، ص:۲۲۴، ۲۲۵، ج:۴، موٴسسة الرسالة: بیروت
(۹) أوجز المسالک إلی موطأ
مالک، کتاب الحج، باب صلاة المزدلفة، حدیث: ۸۸۹، ص:۲۱۵، ج:۸، دارالقلم: دمشق
(۱۰) حجة الوداع وجزء عمرات النبی
صلی اللہ علیہ وسلم، ص:۱۱۰، المجلس العلمی: سملک - ڈابھیل
(۱۱) الشرح المیسر لصحیح
البخاری المسمی الدرر واللّالی بشرح صحیح البخاری، کتاب
الوضوء، باب إسباغ الوضوء، ص:۲۳۰، ج:۱، المکتبة العصریة: بیروت․
$ $ $
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11،
جلد: 99 ، محرم الحرام1437 ہجری مطابق نومبر 2015ء